کچھ سنا آپنے آج اک جھوٹے کا پھر جلسہ تھا
اور تو کچھ نہیں جی بس غریب پھر پھسلا تھا
کچھ سنا آپنے آج اک جھوٹے کا پھر جلسہ تھا
اور تو کچھ نہیں جی بس غریب پھر پھسلا تھا
تمنّا کی دوڑ میں مرنے والے کو امیر کہتے ہیں مگر
بہتر دولت مندی تمنّاؤں کو ترک کرنے میں ہی ہے
بہت غریب و لاچار نظر آتے ہیں زمانے کو ، وہ اکثر
حرام کی کمایؑ “بیٹی” کو کھلانا جو بے غیرتی سمجھتے ہیں
عربی تمام زبانوں کی سردار ہے سب جانتے ہیں مگر
زیر زبر سے مفہوم بدل دینے میں اُردُو کا بھی ایک مقام ہے
اِن آنکھوں سے دیکھ کر یقین نہ کرنا ، یہ جھوٹ بول بھی سکتی ہیں
اُن آنکھوں سے دیکھ کے یقین پختہ رکھنا ، وہ فریب نہیں دیتی ہیں
جزبوں میں خلوس ہے تو مسکرا کے عید ملا کرو
زیست کی تلخیوں کے درد بھی اس سے مدہم ہو تے ہیں
Estimado Señor Rey Del España ;
Le escribo esta carta aquí, porque
sé que será la única vía que le llegue seguro.
No pretendo más que llegar a Usted de alguna manera y en 2018, la manera más segura de que llegue una carta a su destinatario
son las redes sociales.
No le escribo como grandes poetas،
ni como escritores , pero Trataré de presentar
algunos hechos۔