درد بانٹنے والے تھے جو سب کا وہ بھی بار نکلے
وقت آن پڑا جب بے وفا سب ان کے یار نکلے

درد بانٹنے والے تھے جو سب کا وہ بھی بار نکلے
وقت آن پڑا جب بے وفا سب ان کے یار نکلے
دل کا دکھ جانا اس پہ ہنس دینا فطرت رہی اپنی
حال نہ پوچھو دوستو بس شراب پی رہا ہوں میں
تنگ دستی تیرا شکریہ تو نے سب کو ننگا کر دیا
سواےؑ ماں کے ہر کویؑ مجھے پاگل سمجھتا ہے
شکوہ ہے نہ شکایت کویؑ لیکن ازل سے
ہجرت ہی لکھی گیؑ مسلسل اپنے نصیب میں
کہتے ہیں آیؑ اور دبے پاؤں گزر گیؑ عید
شاید وہ چاند چھت پہ دیکھا گیا ہو گا ،
پردیس میں عید کی بات ہم نہیں کرتے
عید پر ہم کو یاد کسی نے تو کیا ہو گا ،
خوشی ہے کہ سب روز عید خوش ہیں
خلوت میں کسی نےعید مبارک تو کیا ہو گا !
” عید مُبارَک “
کیسے کہیں آزادی مبارک ہو سمجھ میں نہیں آتا
معصوم بیٹی کی عزت روز پامال ہوتی ہے
کیوں نہیں درندوں کا قانون بنا آج تک
جبکہ ہر گھر میں کویؑ نہ کویؑ بیٹی ضرور ہوتی ہے
بیٹیوں کو دفن کر دینے والے لوگ پاگل نہیں تھے
پوچھو اس کے دل سے جس کی عزت نیلام ہوتی ہے
کون جواب دے گا سچ کا سامنا کون کرے گا
کویؑ ذمہ دار نہیں کہ سب کی نیت خراب ہوتی ہے
تب ان پڑھ تھے اور اب پڑھے لکھے جاہل ہیں
جاہلو سنو بیٹی کسی کی بھی ہو وہ بیٹی ہوتی ہے
کچھ سنا آپنے آج اک جھوٹے کا پھر جلسہ تھا
اور تو کچھ نہیں جی بس غریب پھر پھسلا تھا