سر زمین پاکستان کا قومی ترانہ بزات خود ایک بہت ہی پیاری دعا ہے
آج یہاں اس کو شارٹ ترجمے کے ساتھ آپ سب کے سامنے حاضر کررہا ہوں
اگر ہم اس دعا کے مفہوم کو سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کرلیں تو پھر یہ پاکستان دنیا کی ایک بہت ہی عظیم سلطنت کہلاےؑ گی ، ان شا اللہ
پاک سر زمین شاد باد
اے پاک سر زمین تو ہمیشہ قایؑم ودایؑم رہے اور آ باد رہے
کشور حسین شاد باد
اے ہماری حسین مملکت تو ہمیشہ قایؑم ودایؑم رہے اور آ باد رہے
تو نشان عزم عالی شان ارض پاکستان
ارضِ وطن تو ہمارے عزمِ عالی شان کی علامت ہے
مرکز یقین شاد باد
تو ہمارے ایمان و یقین کا مرکز ہے جو قایؑم ودایؑم رہے اور آ باد رہے
پاک سر زمین کا نظام، قوت اخوت عوام
اے پاک سر زمین ،عوام کی قوت اور عوام کی اخوت ہی تیرا نظام ہے
قوم ملک سلطنت پائندہ تابندہ باد
یہ قوم اور یہ ملک اور یہ سلطنت ہمیشہ قائم رہے ہمیشہ تابندہ رہے
شاد باد منزل مراد
اے ہماری منزلِ مراد تو ہمیشہ قایؑم ودایؑم رہے اور آ باد رہے
پرچم ستارہ و ہلال
چاند ستارے والا ، سبز پرچم
رہبر ترقی و کمال
ہماری ترقی اور اوجِ کمال کا رہبر ہے
ترجمان ماضی، شان حال، جان استقبال
یہی پرچم ہمارے ماضی کا ترجمان ہے اور زمانہِ حال میں ہماری شان ہے
سایہ خدائےذوالجلال
اس مملکت پر ہمیشہ خدائے ذوالجلال کی رحمت برسے
مشرقی اور مغربی پاکستان کے 723 ممتاز شاعروں نے قومی ترانہ کمیٹی کو مختلف ترانے بھیجے لیکن اس ترانہ کمیٹی نے جناب حکیم احمد شجاع صاحب ، جناب حفیظ جالندھری صاحب اور جناب سید ذوالفقار علی بخاری صاحب کے ترانوں کو ہی منتخب کیا ۔ یہ ترانے 4 اگست 1954 کو پاکستان کی مرکزی کابینہ کے سامنے پیش کیے گئے تھے اور کابینہ نےجناب حفیظ جالندھری صاحب کے لکھے ہوئے ترانے کو ”قومی ترانے“ کے طور پر منظور کر لیا اور یہ پہلی بار 31 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تھا اگر ہم غور سے دیکھیں کہ پاکستان کی قرارداد کب اور کیسے منظور ہویؑ تھی تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جایؑں گے کہ پاکستان کی قراداد آخر کار ٢٣ مارچ ١٩٥٦ کو ہی کیوں منظور ہویؑ تھی اتنا عرصہ کیا ایسا کام کیا جاتا رہا تھا ؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور جس میں 234 شقیں اور 6شیڈول تھے۔۔
اس دستور کی شقوں میں چند اہم ترین کا زکر بھی کریں تو ان میں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ، سپریم کورٹ کے ججوں کو صدر تعینات کرے گا اور کسی الزام کے بغیر ان کو نہیں ہٹایا جا سکتا ۔ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا حق بھی حاصل ہو گا اور
اسلامی تعلیمات کے اصول، غربت کے خاتمے، فلاح کے مساوی مواقع، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، جہالت کے خاتمے، معیار زندگی کی بلندی وغیرہ شامل تھیں۔
23 مارچ 1956 کو دستور کے نافذ العمل ہونے کے بعد گورنر جنرل سکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر بن گئے۔ 7 اکتوبر 1958 کو سکندر مرزا کو عوامی لیگ اور مسلم لیگ کے مذاکرات کے باعث اپنے اختیارات خطرے میں محسوس ہوئے تو انہوں نے پاکستان کا پہلا دستورہی منسوخ کر دیا اور ایک نیو دستور تیار کرنے کا اعلان کر دیا اور اس کے بیس دن بعد 27 اکتوبر 1958 کو آرمی چیف جنرل ایوب خان کو خیال آیا صدر سکندر مرزا قوم کے لےؑ موزوں نہیں ہیں۔ جنرل ایوب خان نے پہلا مارشل لگا کر حکومت خود سمبھال لی تھی۔
1959 کو 23 مارچ آ گیا۔ اب ملک میں تو مارشل لا لگا ہوا تھا، قوم کو 23 مارچ کی چھٹی بھی چاہیے تھی اور چھٹی کے معاملے سے چھیڑ چھاڑ کی چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر بھی جرات نہیں کر سکتا ہے۔ جنرل صاحب اپنی کابینہ سمیت سوچ میں پڑ گئے کہ کیا کریں اور مارشل لا کے زمانے میں یوم جمہوریت کیسے منائیں۔
بہر حال یہ طے کیا گیا کہ کہ قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کا نام دے دیا جاےؑ اور 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کی بجائے یومِ قرارداد پاکستان کی چھٹی دے دی جاےؑ ۔
نوٹ!
مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا تاریخی اجلاس 22 مارچ 1940 کو منٹو پارک لاہور میں ہوا جس میں مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے قرارداد کے ڈرافٹ پر بحث کا آغاز ہوا۔ 23 مارچ کو اسے اوپن سیشن میں پیش کیا گیا۔ اس ڈرافٹ کو 24 مارچ 1940 کو منظور کیا گیا تھا کچھ راویان اس میں بھی بات کا بتنگڑ بنا کر سوال اٹھاتے دیکھے جاتے ہیں کہ ٢٢ مارچ یا ٢٤ مارچ کو یہ دن کیوں نہیں منایا جا سکتا؟
ان سب کے لےؑ اتنا ہی عرض ہے کہ جس دن ڈرافٹ کو پیش کیا گیا تھا سی دن کا شمار کیا جانا ہی ہر حال میں بنتا ہے ۔
آپ سب کو یوم قرار داد پاکستان بہت مبارک ہو
Khair mubark ap ko bahi mubarak ho